وہ پیغام انسانیت کیلئے تھا۔ قبیلہ یا مسلک یا سرزمین کیلئے نہیں تھا

ایک محدث نے واقعہ کربلا کو بیان کیا۔ اور اس کےسچے حقائق بیان کیے۔ اس کے سچے حقائق کرنےکےبعد بڑی اہم بات بھی کی۔ کہ واقعہ کربلا میں جس چیز کا سب سے زیادہ اہتمام کیاگیا۔ وہ سجدے تھے۔ اور عبادات بھی تھے۔ اور پردہ تھا۔ اور حیاء تھا۔ ہر طرف دشمنوں کی یلغار ہو۔ اور سجدوں میں کمی نہ آئی ہو۔ پردے میں کمی نہ آئی ہو۔

اور حیاء میں کمی نہ آئی ہو۔ پھر انہوں نے اپنی ساری گفتگو کا نچوڑ نکالا۔ ساری گفتگو کا نچوڑ نکال کر فرمایا:کہ واقعہ کربلا جو ہے ہمیں دو سبق دے کر گیا۔ ایک سبق ہے پردے اور حیاء کا۔ اور ایک سبق ہے سجدوں کی کثرت اور سجدوں کا نہ توڑنا۔ جہاں حالات ایسے آجائیں کہ زندگی بظاہر ناممکن ہوجائے۔ ان حالات میں بھی سجدے قضاء نہیں ہوں۔ بلکہ ادا ہونے چاہیں۔ حسینؓ نے کربلا کے میدان میں محفل سجائی تھی۔ اس میدان میں معاشرے کے تمام طبقات کی نمائندگی تھی جن میں بوڑھے، جوان، بچے، مرد، خواتین، امیر غریب سب شامل تھے۔ سردارانِ قریش اور بنی ہاشم اور غلامانِ بنی ہاشم، مختلف قبائل کے بڑے بڑے لوگ شامل تھے۔ یہ پیغام ہے مساوات کا، انسانی عدل و انصاف کے نفاذ کا، بلاتفریق رنگ و نسل اور مسلک و قبیلہ معاشرے کے تمام طبقات کو ظلم کیخلاف جمع کرکے ظالم کا مقابلے کرنے کا۔ بنی نوع و انسان کی اس سے بڑھ کر رواداری اور وحدتِ انسانی کی مثال اور کوئی نہیں ہوسکتی۔ یہ ظلم کو نہ پنپنے دینے کا، انصاف کو عام کرنے، ظالم کیخلاف گردن نہ جھکانے، دہشت گردی کو شکست دینے۔ انسانیت کے نام عدل کا، نبی کریم کی تعلیمات کو عام

کرنے کا پیغام ہے لیکن بدقسمتی سے آپ کی تعلیمات کو نجات کے پیغمبر سمجھ کر نہیں دیکھا گیا اور نہ ہی حسینؓ کے اقدامات کو صحیح طریقے سے سمجھا گیا۔ کیا تم نہیں دیکھ رہے کہ حق پر عمل نہیں ہورہا اور باطل سے اجتناب نہیں کیا جا رہا۔ مومن کیلئے یہ مناسب ہے کہ وہ اللہ کی رضا کیلئے موت کو گلے لگالے لیکن ظلم کے سامنے سر نہ جھکائے۔ مسلمانوں میں یہ اوصاف فطری طور پر موجود ہیں لیکن اصل مسئلہ اسکو اجاگر کرنے کا ہے۔ کربلا کے میدان میں اصحاب کی انسانی صفات و کمالات پوری طرح سے جلوہ گر نظر آتے ہیں۔ وہ پیغام انسانیت کیلئے تھا۔ قبیلہ یا مسلک یا سرزمین کیلئے نہیں تھا، کربلا کے واقعہ کے سالار حسین ابن علیؓ ہیں، وہ سب کے سالار ہیںچاہے وہ عیسائی، ہندو، سکھ یہودی کوئی بھی ہو۔ حضرت امام حسینؓ نے مسلمانوں کے وقار کو زندہ کیا ہے اور اسکے مقابلے میں ظلم کا دم گھٹتا ہے اور وہ کہیں زندہ نہیں رہ سکتا۔ کربلا کے معاملہ کی حق اور باطل کے درمیان معرکہ کی سی  حیثیت ہے۔

اپنا کمنٹ کریں