عموماً ہمارے معاشرے میں دیکھا جاتا ہے کہ اگر بیوی کسی غی۔ر مرد کے ساتھ بات کرےیا وہ اور کسی حال۔ت میں پکڑی جائے تو ہمارا ظ۔الم معاشرہ اس کو غیر ت کے نام پر ق۔ت۔ل کردیتا ہے۔
آپ یہ سن کر حیران ہوجائیں گے کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس ایک غیرت کے نام پر اس ایک ق۔ت۔ل کی کوئی س۔زا نہیں۔ہم آپ کو نبی پاکﷺ کا ایک واقعہ سنائیں گے جب ایک صحابی نے سوال کیا کہ اگر بیوی کسی غی۔ر مرد کے ساتھ ق۔ابل اع۔تراض ح۔الت میں پائے جائے ۔اگر کوئی مرد اپنی بیوی کو کسی غی۔ر مرد کے ساتھ ق۔اب۔ل ِ اعت۔راض حالت میں دیکھ لیے تو اس صورت میں اس عورت کو ق۔ت۔ل کرنا یا کسی دوسرے طریقے سے ق۔ت۔ل کرانے کی اسلام میں قطعاًاجازت نہیں ہے۔
جیسا کہ ابو ہریرہ سے روایت ہے حضرت سعد بن عبادہ نے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول اگرمیں اپنی بیوی کو کسی مرد کے ساتھ قابل ِ اعت۔راض ح۔الت میں دیکھوں تو کیا میں اس کو اس وقت ہاتھ نہ لگاؤ جب تک چار گواہ نہ لے آؤ۔ تو حضرت محمد ﷺ نے فرمایا : ہا ں بےشک ۔حضرت سعد بن عبادہ نے کہا ہرگز نہیں۔
اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ۔ میں تو اس کا علاج ت۔لوار کے ساتھ جلد ٹھیک کر دوں گا۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: تمہارے سردار کیا کہہ رہے ہیں؟ وہ ذرا غور سے سنو وہ بڑے غیر ت والے ہیں۔ اور میں ان سے زیادہ غیرت والا ہوں۔ اور اللہ مجھ سے بھی زیادہ غیر ت رکھتا ہے۔
اس حدیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام قطعی طورپر مرد کو یہ حق نہیں دیتا کہ وہ بیوی کو ق۔ت۔ل کرے۔ لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ مرد جس کے لیے یہ ناقابل ِ برداشت عمل ہے۔ وہ کیا کرے؟
اس حالت میں خوبصورت عمل تو یہ ہے کہ اللہ کی رضا کے لیے اپنی بیوی کو معاف کردے۔بے شک ہم اللہ تعالیٰ سے تمام تر گناہوں کے باوجود معافی کے طلب گار ہیں۔
اور بیو ی کے اس عمل پر صبر کر لیں۔ اور اس معاملے کو اللہ پر چھوڑ دیں۔بے شک اللہ تعالیٰ بہتر صلہ دینے والا اور صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ دوسری صورت یہ ہوسکتی ہے۔ کہ بیوی سے کچھ دن کےلیے علیحدگی اختیار کر لے۔ لیکن اسے ط۔لاق نہ دے ۔
ہوسکتاہے کہ بیوی کو اس عمل پر ندامت ہو۔ اور وہ شوہر اور اللہ تعالیٰ سے معافی کی طلب گا ر ہوجائے۔ اس علیحدگی میں اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی جائے۔ دعا سے اللہ تعالیٰ سے دل کا اطمینا ن مانگا جائے۔ اگر آپ کا دل مطمئن ہوجاتاہے اور نرم پڑ جاتاہے۔ اس کے علاوہ آپ کی بیوی بھی شرمندہ ہے۔ تو اسے موقع دیناچاہیے۔
اللہ کی خاطر اسے بھلا کر اسے دوبارہ اپنالیجئے۔ تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ خوش اسلوبی کے ساتھ اسے طلاق دیدے۔ لیکن اس کی ذات پر کی۔چڑاچھ۔النے کا یا اس کو نق۔صان پہنچانے کا شریعت آپ کو کوئی حق نہیں دیتی ہے۔
اپنا کمنٹ کریں