زندگی کی چاہت رکھتے ہو؟ اگر تمہیں زندگی کی خواہش ہے تو اپنا ہاتھ بیل کی پشت پر رکھ دو، تیرے ہاتھ کے نیچے جتنے بال آئیں گے اتنے سال تو زندہ رہے گا، (چنانچہ فرشتہ نے جا کر کہا تو ) موسیٰ علیہ السلام نے پوچھا کہ پھر کیا ہوگا؟ فرشتہ نے کہا کہ اس کے بعد تمہیں موت آجائے گی، موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ وہ اب قریب ہی ہے، پھر انہوں نے دعا کی کہ پروردگار! مجھے مقدس سرزمین میں ایک پتھر کے پھینکنے کے فاصلہ پر موت دینا اس کے بعد رسول اللہ ملی تم نے فرمایا کہ خدا کی قسم ! اگر میں وہاں ہوتا تو تمہیں ان کی قبر دکھاتا جو کہ سرخ نیلے کے پاس راستہ پر واقع ہے۔”
اسے بخاری (1339) اور احمد (2/269) نے روایت کیا ہے۔
حدیث سے ثابت ہوا
معلوم ہوا کہ خدا کے پیغمبروں کو ارواح قبض کرنے سے قبل اختیار دیا جاتا ہے کہ وہ یا تو زندگی کو اختیار کر لیں یا اللہ تعالیٰ کی رحمت میں آجائیں۔
فرشتے ، انسانی صورت میں آسکتے ہیں۔
اکا بر بھی اللہ کے بندے ہوتے ہیں جیسے انبیاء کرام اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے لوگ، ان سے کوئی لغزش سرزد ہو جائے تو قابل عفو و درگزر ہوتی ہے۔ اگر کوئی شخص کسی کے گھر میں بلا اجازت داخل ہو جائے اور گھر کا مالک اس کو ٣۔ ۴۔
نقصان پہنچائے تو اس پر کوئی قصاص نہیں ہوگا۔
حملہ آور شخص کا مقابلہ اور دفاع کرنا جائز ہے بلکہ مارنے کی نوبت آئے تو بھی کوئی حرج نہیں ہے جیسا کہ حدیث نبوی مسلم سے ثابت ہے کہ اگر دوسرا شخص جس پر حملہ کیا گیا ہو لڑائی میں قتل ہو جائے تو وہ شہید ہے۔ موت برحق ہے، اس سے کوئی مفر نہیں، اگر موت سے کوئی بیچ سکتا تو انبیاء و
رسل بچ پاتے۔
موسیٰ علیہ السلام کا مقام و مرتبہ معلوم ہوا کہ انہوں نے ملک الموت کے طمانچہ مار کر آنکھ ہی نکال دی، اگر موسیٰ علیہ السلام کا اللہ کے ہاں کوئی مرتبہ یا اعزاز نہ ہوتا تو ملک الموت ان سے سخت انتقام لیتے۔
معلوم ہوا کہ اللہ تعالٰی اپنے مومن اور متقی بندوں پر اپنا فضل و احسان فرما کران
کا اکرام کیا کرتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ مقدس اور مبارک مقامات میں جہاں صالحین کے مدفن اور قبور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی قبر مبارک ایک پتھر کے پھینکنے کے فاصلہ پر بیت المقدس کے قریب ہے۔
ہوں دفن ہونا مستحب ہے۔
اپنا کمنٹ کریں