مکہ مکرمہ میں ایک عورت تھی اُسکو اپنے حسن پر بڑا ناز تھا۔وہ ایک مرتبہ نہانے کہ بعد کپڑے بدل کر اپنے بال سنوار رہی تھی آئینے کے سامنے کھڑی تھی اور اپنے آپ پہ بہت فریفتہ تھی کہ میں بہت حور پری ہوں۔ خاوند کو جب دیکھا تو اُس نے بڑے ناز نخرے سے بات کی کہ ہےکوئیی مرد ایسا جو مجھے دیکھے اور میری تمنا نہ کرے؟
تو خاوند نے کہا ہاں ہے عبید بن عمیر یہ مسجد نبوی میں مدرس اور خطیب تھے۔تو میاں بیوی کا تعلق عجیب سا ہوتا ہے آگے سے کہنے لگی تو دے مجھے اجازت میں تجھے دیکھاتی ہوں وہ پھسلتا کیسے ہے۔ اُس نے کہا ٹھیک ہے میں اجازت دیتا ہوں عورت کو اجازت مل گئی اور وہ نکلی، پھر مسجد کے دروازے پر آ کر ک۔ھڑی ہو گئی ۔
اب جب مولانا عبید بن عمیر رحمہ اللہ مسجد نبوی ﷺ سے باہر نکلے تو عورت نے پہلے اس طریقے سے بات کہی جیسےکوئیی مسئلہ پوچھنے کے لیے کھڑی ہو تو مولانا کھڑے ہو گئے اس دوران اس نے اپنے چہرے سے نقاب کو ہٹا دیا ۔اُسکا خیال یہ تھا کہ جب وہ میرے حسن و جمال کو دیکھیں گے تو فریفتہ ہو جائیں گے، جسے ہی اس نے ایسا کیا
تو اُنہوں نے نظر ہٹا دی اور کہا دیکھو کیوں ایسے کام کے بارے میں سوچتی ہو جس سے تمہیں دنیا میں بھی ذلّ۔ت ملے گی اور آخرت میں بھی ذلّت ملے گی اب یہ الفاظ انکے منہ سے اتنے درد سے نکلے وہ شرما گئی اور واپس آ گئی ۔شوہر نے پوچھا کیا بنا؟ کہنے لگی کیا مرد ہی نیک ہوتے ہیں؟ عورتیں نہیں نیک ہو سکتی میں بھی نیک بنو گی۔ اُسکی زندگی بدل گئی اُسکے بعد روز وہ خاوند سے پوچھتی عشاء کے وقت کہ تمہیں میری ضرورت ہے؟
اگر کہتا ہاں تو وہ وقت خاوند کے ساتھ گزارتی اور اگر وہ کہتا نہیں تو جبّا پہن لیتی اور ساری رات مسلے پہ عبادت کرتی۔اُسکا خاوند کہا کرتا تھا پتا نہیں عبید بن عمیر نے ایک فقرہ بول کہ میری بیوی کو نیک کیسے بنا دیا۔شک۔ار کرنے کو آئے شک۔ار ہو کے چلےتو
یہ کیفیتیں اُن کی اس لیے تھیں کہ پروردگار عالم نے اُن کے دلوں میں اک اثر ڈالا ہوا تھا، ایمان کامل اُن کے دلوں میں تھا اور یہ نہیں کے صرف بڑے لوگوں کو یہ حال تھا بچوں کا بھی یہی حال تھا
اپنا کمنٹ کریں