اسلام آباد (نیوز ڈیسک) امریکہ میں ایک نوجوان کلمہ گو مسلمان تھا‘ دفتر میں کام کرتا تھا‘ دفتر میں کام کرنے والی ایک امریکن لڑکی سے اس کا تعلق بن گیا‘ اور اس کا محبت یہ تعلق اتنا بڑھا کہ اس نے یہ محسوس کیا کہ اب میں اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ اس نے والدین کو پیغام بھیجا کہ میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں‘ اس کے والدین نے
کہا کہ ہماری کنڈیشن ہے کہ ہم عیسائی ہیں آپ کو اپنا دین چھوڑ کر عیسائی بننا پڑے گا‘ والدین سے قطع تعلق کرنا پڑے گا‘ آپ اپن یملک واپس نہیں جایا کریں گے‘ جس معاشرے میں آپ رہتے ہیں اس سے بالکل آپ ملا ہی نہیں کریں گے اگر آپ یہ سب شرائط پوری کر سکتے ہیں تو ہم اپنی بیٹی کی شادی کر دیں گے۔ یہ اپنے جذبات میں اس قدر مغلوب الحال تھا کہ اس نے یہ تمام فوری طور پر شرائط قبول کر لیں اور اس نے شادی کر لی۔
مسلمان بڑے پریشان کبھی کبھی وہ اس کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے مگر یہ ان سے ملنے سے بھی گھبراتا‘ کبھی کہیں کسی کو دیکھ لیتا تھا تو دور کترا جاتا تھا لوگ بالآخر تھک گئے کسی نے کہا کہ اس کے دل پر مہر لگ گئی کسی نے کہا کہ مرتد ہو گیا‘ کسی نے کہا کہ اس نے جہنم خرید لی‘ کسی نے کہا کہ اس نے بہت بڑا مہنگا سودا خریدا۔
ہر ایک کی اپنی اپنی باتیں تھیں۔ تین چار سال اسی حال میں گزر گئے۔ یہاں تک کہ دوست احباب سب کی یادداشت سے بھی نکلنے لگ گیا‘ بھولی بسری چیز بنتا چلا گیا۔ایک دن امام صاحب نے فجر کی نماز کیلئے جب دروازہ کھولا تو دیکھا کہ یہ نوجوان آیا اس نے وضو کیا اور مسجد میں نماز کی صف میں
بیٹھ گیا۔ امام صاحب بڑے حیران ہوئے ان کیلئے تو یہ چیز بالکل عجیب تھی‘ نماز پڑھائی اور اس کے بعد اس سے سلام کیا پھر اس کو لے کر اپنے حجرے میں گئے اور پوچھا کہ آج بڑی مدت کے بعد آپکی زیارب نصیب ہوئی۔ اس وقت اس نے اپنی حالت بتائی کہ میں نے اس لڑکی کی محبت میں اپنا سب کچھ قربان کر دیا‘ بہت کچھ میں نے اپنا ضائع کر دیا‘ لیکن جس گھر میں رہتا تھا میرے اس گھر میں اللہ کا قرآن رکھا ہوتا تھا‘ میں جب کبھی آتا جاتا‘ اس پر میری نظر پڑتی تو میں اپنے دل میں سوچتا کہیہ میرے مولیٰ کا کلام ہے یہ میرے اللہ کا قرآن ہے اور میرے گھر میں موجود ہے میں اپنے نفس کو ملامت کرتا۔
اعمال تو میرے برے تھے لیکن دل مجھے کہا کرتا تھا کہ نہیں جس کا میں نے کلمہ پڑھا ہے اس سے محبت ضرور کرتا ہوں اس کی نشانی میں نے اپنے گھر میں رکھی ضرور ہے اس طرح کئی سال گزر گئے ایک دن میں آیا ۔
اور حسب معمول میں نے گزرتے ہوئے اس جگہ پر نظر ڈالی مجھے قرآن نظر نہ آیا میں نے بیوی سے پوچھا کہ یہاں ایک کتاب ہوا کرتی تھی وہ کہاں ہے؟ اس نے کہا غیر ضروری چیزوں کو میں نے پھینک دیا ہے‘ میں نے پوچھا اس کتاب کو بھی؟ اس نے کہا ہاں!
میں وہاں سے واپس گیا اور کوڑے سے اس کتاب کو اٹھا کر لے آیا جب لڑکی نے دیکھا کہ یہ بہت زیادہ اس کتاب کا احساس کر رہا ہے تو وہ بھی احساس کرنے لگی کہ آخر وجہ کیا ہے؟ میں نے کہا کہ بس میں اس کتاب کو رکھنا چاہتا ہوں۔ اس لڑکی نے جب دیکھا کہ یہ عربی میں ہے تو اس نے کہا کہ ہاں کوئی نہ کوئی اس کا تعلق اسلام سے ہے تو اس نے کہا کہ دیکھو تو اس گھر میں یہ کتاب رہے گیا پھر میں رہوں گا۔
تمہیں اس میں سے کسی ایک کے بارے میں فیصلہ کرنا ہو گا وہ کہنے لگا کہ جب اس لڑکی نے یہ کہا تو میرے لئے یہ زندگی کا عجیب وقت تھا میں نے اپنے دل سے پوچھا کہ تو نے اپنی خواہشات کی تکمیل کیلئے وہ کچھ کر لیا جو تجھے نہیں کرنا چاہئے تھا۔ آج تیرا رشتہ پروردگار سے ہمیشہ کیلئے ٹوٹ جائے گا۔
اب تو فیصلہ کر لے اب تو اس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے یا اس کے پروردگار کو چاہتا ہے جب میں نے دل میں یہ سوچا تو دل نے یہ آواز دی کہ نہیں میں اپنے مولیٰ سے کبھی بھی نہیں کٹنا چاہتا میں نے لڑکی کو طلاق دی اور دوبارہ کلمہ پڑھا اور اب میں ہمیشہ کیلئے پکا مسلمان بن چکا ہوں۔
اپنا کمنٹ کریں