اسلام آباد(نیوز ڈیسک) آج میں اپنے گاؤں میں تندور کے باہر پڑی چارپائی پر بیٹھا ہوا تھا ، ایک کار آ کر رکی ایک صاحب نے شیشہ گرا کر اپنا سر باہر نکال کر کہا بات سنیں میں نے وہیں پر بیٹھے ہوئے کہا جناب اُتر کے نیچے آ کر سنائیں سلام دعا کے بعد اس بندے نے پوچھا ۔
یہاں ذابیل نام کا نوجوان انکے والد کا نام صادق ہے ، انکے بارے میں کچھ معلومات چاہیے تھی۔ اپنا نام سن کر میں چونک گیا ، اس سے پہلے کہ یہ گھر جا کر کچھ کہیں اسے یہیں سے ہی چلتا کرتا ہوں جناب خریت کیا کام ہے؟ انہوں نے کہا اس کو نوکری دینی ہے اس کے
کریکٹر کے بارے میں تھوڑی سی معلومات چاہیے تھی نوکری کا سن کر میں چونک گیا، دل میں سوچا یہ ضرور ابا جی کا کام ہو گا ، میں نے کہا 500 کا نوٹ لگے گا انفارمیشن دینے کا معاوضہ ، اس نے نوٹ میرے ہاتھ میں تھمایا میں نے کہا ، وہ تو ایک نمبر کا کھڑوس، ٹھگ ،
سارا دن گلی کی تھڑی کے اوپر بیٹھا فیس بک استعمال کرتا ہے، سارا محلہ اس سے تنگ ہے، اس کے گھر والے بھی خود اس سے تنگ ہیں آپ ایسے شخص کو کیسے نوکری دے سکتے ہیں؟ ایسا نہ ہو آپ کے دفتر میں آپ کو چونا لگا کر ہی بھاگ جائے اس شخص نے شکریہ ادا کیا اور رخصت ہو گیا ، میں خوشی خوشی گھر میں داخل ہوا۔ امی نے اندر داخل ہوتے ہی کہا ، بیٹا جہاں پر تیرے رشتے کی بات چلا رہے تھے ، آج انہوں نے محلے میں تصدیق کی کسی منحوس نے پتہ نہیں کیا کہا ، انہوں نے رشتے سے صاف انکار کردیا بس پھرمیں 500 کا نوٹ ہاتھ میں پکڑے اپنے کھوٹے نصیب کو کوس رہا تھا۔
اپنا کمنٹ کریں