لاہور: دنیا میں موجود ہر انسان کے ساتھ کچھ دن ایسے وابستہ ہوتے ہیں کہ وہ عمر کے جس حصے میں بھی چلا جائے‘ ا س کی یاد‘ دکھ اور خوشی کے احساسات اسے یاد رہتے ہیں ۔لوگوں کو اپنی اولاد‘ماں باپ کی اچانک رحلت یا کسی بڑے ذاتی حادثے کی گھڑیاں بھلائے نہیں بھولتیں نامور کالم نگار منیر احمد بلوچ اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں
تو کچھ لوگوں کو عالمی اور ملکی سیا سی تاریخ سے وابستہ کچھ دن نہیں بھولتے۔ اسی طرح مجھے بھی کچھ دن‘ کچھ لوگ یاد رہے ہیں جنہوں نے اپنی زندگیاں‘ اپنی جوانیاں‘ اپنے بچوں کی خوشیاں‘ اپنے ماں باپ کی چاہتیں و شفقتیں ‘وطن کی خاطر قربان کر دی ہیں‘ ایسے لوگوں کو کیسے بھولا جا سکتا ہے‘ جن کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن ِمجید فرقان ِحمید میں ہم سب کو خبردار کر دیا کہ دیکھو‘ وہ جو میری راہ میں مارے گئے ہیں ‘ان کو مردہ مت کہو‘ وہ زندہ ہیں اور ہم انہیں رزق دے رہے ہیں‘ لیکن تم اس کا شعور نہیں رکھتے۔
آج جب میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں تو میرے سامنے شہید کیپٹن کرنل شیر خان کا ہنستا‘ مسکراتا چہرہ ہے۔ پاکستان کے شیر جوانوں اور بہادروں کی دھرتی ضلع صوابی کے گائوں نواں کلی کا وہ پشتون جوان جو معرکہ کارگل میں اپنی جان وطن کی خاطر اس طرح قربان کر گیا کہ اس کی شجاعت کا اعتراف دشمن کے جرنیلوں نے یہ کہتے ہوئے کیا کہ اگر یہ نوجوان ایک دن مزید ہمارے سامنے ڈٹا رہتاتو شاید ہم کارگل واپس لینے کی سب امیدیں کھو بیٹھتے‘ وہ تو شکر ہے کہ اس کا ایمو نیشن ختم ہونے لگا تو اس نے زندہ گرفتار ہونے کی بجائے چوٹی سے نیچے اتر کر بھارت کی فورسز کی پوسٹوں کو اس لئے نشانہ بنانا شروع کر دیا کہ قید ہونے کی بجائے شہادت کا رتبہ حاصل کر سکے۔
انڈین آرمی کے192 پہاڑی بریگیڈ کے بریگیڈیئر ایم پی ایس باجوہ جو اب ریٹائر ہو چکے ہیں‘ وہ اپنی یادداشتوں کی ایک ڈائری میں لکھتے ہیں کہ اس ایک افسر(کیپٹن کرنل شیر خان ) نے ہماری چھ کمپنیوں کو اس طرح بھگایا کہ لگتا تھا کہ وہ پورے ایک بریگیڈ کے ساتھ ہمارے مقابلے پر ہے‘
لیکن ہم یہ جان کر حیران رہ گئے کہ اس کے پاس کل نفری20 جوانوں پر مشتمل تھی اور ہتھیار بھی نہ ہونے کے برا بر تھے‘ کیونکہ وہ پچھلے چوبیس گھنٹوں سے دائیں بائیں اور آگے پیچھے سے انڈین آرمی کی دو دو کمپنیوں کا اکیلا مقابلہ کر رہا تھا۔
اپنا کمنٹ کریں