سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ مسجد نبوی گئے ۔ انہوں نے ایک نوجوان کو دیکھا کہ زارو قطار رورہا ہے ۔ عمرؑ نے پوچھا: نوجوان کیوں رورہے ہو؟ نوجوان نےکہا مجھ سے ایک بڑا گن اہ ہوگیا ہے۔ اب مجھے ڈر ہے کہ میرا گن اہ مع اف ہوگا کہ نہیں ۔ میں اس لیے رورہا ہوں۔ عمر ؑ نے فرمایا: کو ئی بات نہیں ۔ میرے ساتھ چلو۔ میں نبی پاک ﷺ کی خدمت میں عرض کرتا ہوں۔ وہ آپ کے لیے شفاعت کریں گے ۔
اور گن اہ معا ف ہوجائے گا۔ چنانچہ وہ نوجوان نبی پاک ﷺ کی خدمت میں روتا ہوا آیا۔ نبی پاک ﷺ نے اس کو روتا ہوادیکھا اور فرمایا: تم سے کونسا گن ا ہ ہوا ہے ؟ اس نے عر ض کیا: میں کیوں نہ روؤں حالانکہ میں نے ایسے ایسے گن ا ہ انجام دئے ہیں۔ کہ خداوند عالم ان میں سے بعض کی وجہ سے مجھے جہنم میں بھیج سکتا ہے۔ میں تو یہ مانتا ہوں کہ مجھے میرے گن اہوں کے بدلے دردناک ع ذاب دیا جائے اور خداوند عالم مجھے بالکل معاف نہیں کرسکتا۔
پیغمبر اکر م ﷺ نے فرمایا: کیا تونے خدا کے ساتھ شرک کیا ہے؟ اس نے کہا: نہیں ، میں شرک سےپناہ چاہتاہوں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا: کیا کسی نفس محترمہ کا قتل کیا ہے؟ اس نے کہا : نہیں ، آپ نے فرمایا: خداوند عالم تیر ے گن اہوں کو بخش دے گا اگرچہ بڑے بڑے پہاڑوں کے برابر ہی کیوں نہ ہو، اس نے کہا: میرے گن اہ بڑے بڑے پہاڑوں سے بھی بڑے ہیں،
اس وقت پیغمبر ﷺ نے فرمایا: خدا وند عالم تیرے گن اہوں کو ضرور بخش دے گا چاہے وہ ساتوں زمین ، دریا، درخت ، ذرات اور زمین میں دوسری موجوات کے برابر ہی کیوں نہ ہوں، بے شک تیرے گن اہ قابل بخشش ہیں اگرچہ آسمان ، ستاروں اور عرش وکرسی کے برابر ہی کیوں نہ ہوں
اس نے عرض کیا: میرے گن اہ ان تمام چیزوں سے بھی بڑے ہیں ! پیغمبر اکرم ﷺ نے غیض کےعالم میں اسے دیکھااور فرمایا: اے جوان ! تیرے اوپر افسو س ہے ! کیاتیرے گن اہ زیادہ بڑے ہیں یا تیرا خدا؟یہ سن کر وہ جوان سجدے میں گر پڑا ا ور رکھا: پاک و پاکیزہ ہے میرا پروردگار، یارسول اللہ اس سے بزرگی توکوئی نہیں ہے، میرا خدا تو ہر عظیم سے عظیم سے تر ہے ۔
اس وقت آنحضرت ﷺ نے فرمایا: کیا بڑے گن اہوں کو خدائے بزرگ کے علاوہ بھی کوئی معاف کرسکتا ہے ؟ اس جوان نےکہا: نہیں یا رسول اللہ ! قسم بخدا نہیں ، اور اس کے بعد وہ خاموش ہوگیا۔ پیغمبر اکر م ﷺ نے اس سے فرمایا: اے جوان وائے ہو تجھ پر ! کیا تو مجھے اپنے گن اہوں میں سے کسی ایک گن اہ کو بتا سکتا ہے؟ اس نے کہا: کیوں نہیں ، میں سات سا ل سے قبروں کوکھول کر مردوں کو باہر نکالتا ہوں
اور ان کا کفن چ وری کر لیتا ہوں! قبیلہ انصار سے ایک لڑکی کا انتقال ہوا، جب لوگ اس کو دفن کرکے واپس آگئے ، میں رات میں گیا، اس کو باہر نکالا، اور اس کا کفن نکال لیا، اس کو برہنہ ہی ق بر میں چھوڑ دیا، جب میں واپس لوٹ رہاتھا شیط ان نےمجھے ورغلایا، اور اس کے لیے میرے شہوت کو ابھارا۔ شیط انی وسوسہ نے اس کو بدن اور خوبصورتی نے مجھے اپنےجال میں پھنسا لیا ۔
یہاں تک نفس غالب آگیا اور واپس لوٹا اور جو کام نہیں کرنا چاہیے تھا وہ کربیٹھا!!اس وقت گویا میں نے ایک آواز سنی: اے جوان روز قیامت کے مالک کی طرف سے تجھ پروائے ہو! جس دن تجھے اورمجھے اس کی بارگاہ میں پیش کیاجائے گا، ہائے تونے مجھے مردوں کے درمیان برہنہ کردیا ہے۔ مجھے ق بر سے نکالا، میرا کفن لے چلا اور مجھے جنابت کی حالت میں چھوڑ دیا، میں اسی حالت میں روز قیامت محشور کی جاؤں گی
وائے ھو تجھ پر آتش جہنم کی !یہ سن کر پیغمبر اکر مﷺ نے بلند آواز میں پکارا: اے فاسق ! یہاں سے دور چلاجا، ڈرتا ہوں کہ تیرے ع ذاب میں میں بھی جل جاؤں ! تو آتش جہنم سے کتنا نزدیک ہے؟! وہ شخص مسجد سے باہر نکلا ،کچھ کھانے پینے کاسامان لیا اور شہرے سے باہر پہاڑ کی طر ف چل دیا، حالانکہ موٹا اور کھردرا کپڑا پہنے ہوئے تھا، اور اپنے دونوں ہاتھوں کو اپنی گردن سے باندھے ہوئے تھا اور پکارتا جاتاتھا : خداوندا ! یہ بہلول تیر ہ بند ہے ، ہاتھ بندھے تیر ی بارگاہ میں حاضر ہے۔
پالنے والے ! تو مجھے جانتا ہے، میرے گن اہ کو بھی جانتا ہے۔ میں آج تیرے پیشمان بندوں کے قافلہ میں ہوں، توبہ کےلیے تیرے پیغمبر کےپاس گیا تھالیکن اس نے مجھے دور کردیا ہے، پالنے والے تجھے تیری عزت وجلال اور سلطنت کا واسطہ کہ مجھے ناامید نہ کرنا، اے میرے مولا و آقا! میری دعا کو رد نہ کرنا اور اپنی رحمت سے مایوس نہ کرنا۔
وہ چالیس دن تک دعا و مناجات اور گریہ و زاری کرتا رہا۔ اور اگر میری دعا قبول نہ ہوئی ہو اور میرے گناہ بخشے نہ گئے ہوں نیز مجھ پر ع ذاب کرنے کا ارادہ ہو تو میرے اوپر آتش نازل فرماتا کہ میں جل جاؤں یا کسی دوسری عقوبت میں مبتلا کردے تاکہ میں ہلاک ہوجاؤں، بہرحال قیامت کی ذلت و رسوائی سے مجھے نجات دیدے ۔
چنانچہ اس موقع پر درج ذیل آیات نازل ہوئیں:اور وہ یہ لوگ ہیں کہ جب کوئی نمایاں گن اہ کرتے ہیں یا اپنے نفس پر ظلم کرتے ہیں تو خدا کو یاد کرکے اپنے گن اہوں پراستغفار کرتے ہیں اور خدا کے علاوہ کون گن اہوں کو معاف کرنے والا ہے اور وہ اپنے کئے پرجان بوجھ کر اصرار نہیں کرتے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کی جزا مغفر ت ہے اور وہ جنت ہے جس کے نیچے نہریں جاری ہیں وہ ہمیشہ اسی میں رہنے والے ہیںاور عمل کرنے کی یہ جزا بہترین جزا ہے”۔
اپنا کمنٹ کریں