ایک سہیلی جو بے حد خوبصورت اور سمارٹ تھی اکثر کہا کرتی تھی کہ میں نے ایک جنّ سے شادی کررکھی ہے.لیکن ہم اسکی بات کو گپ سمجھ کر اڑا دیتے ،کیونکہ ہم جنوں پر یقین نہیں رکھتے تھے اس لئے کسی جنّ سے شادی تو انتہائی بے ہودہ اور ناممکن لگتا تھا. وہ چونکہ شرارتی تھی اس لئے کبھی اس پر غور نہیں کیا.اب پندرہ سال بعد اس سے ایک مارکیٹ میں ملاقات ہوئی تو ایک دوسرے کا حال معلوم کرنے کے دوران اسکی گھریلو زندگی کے بارے پوچھا کہ کیا اسکی شادی ہوچکی ہے ،
بچے کتنے ہیں توحسب معمول ہنس کر بولی ’’ شادی تو بہت پہلے سے کرچکی ہوں،بتایا تھا کہ ایک جنّ سے بیاہ کیا تھا‘‘ ’’جانے دو کیا بات کرتی ہو،تمہاری یہ عادت ابھی تک نہیں گئی چھوڑنے والی‘‘ میں نے کہا . ’’ ہیں ،کیا تم اسکو مذاق سمجھتی رہی ہو..‘‘ اس نے حیرت سے سوال کیا ’’ یہ مذاق نہیں حقیقت ہے.
میرا شوہر ایک جنّ .انسان نہیں.اب پوچھو گی کہ ایک جنّ سے شادی کیسے ہوسکتی ہے.تو اس بارے میں خود کھوج لگا لو.‘‘ اس نے مجھے یہ تو نہیں بتایا کہ اسکی شادی جنّ سے کیسے ہوگئی لیکن یہ کہاکہ اسکی اولاد نہیں اور وہ جنّ جس کانام اس نے عبدالباری بتایا تھا اسکے ساتھ بہت خوش ہے. ’’ میں یہ نہیں سمجھ پارہی کہ تم نے ایک جنّ سے شادی کیوں کرلی‘‘ وقتی طور پر میں نے دلچسپی ظاہر کی.
’’ کیا حرج ہے.لوگ کتوں ،بلیوں اور گدھوں سے شادیاں کررہے ہیں … میں نے تو پھر بھی ایک ایسی مخلوق سے شادی کی ہے جس کا ذکرساری الہامی کتابوں میں موجود ہے‘‘اس نے ترنت جواب دیا.’’اور ہاں ،اگر کہو تو تمہارے لئے بھی جن کا رشتہ تلاش کروں‘‘ اس نے مجھے چٹکی کاٹی لیکن میرا حیرت زدہ چہرہ دیکھ کر وہ ہنستی مسکراتی چلی گئی اور میں مخمصوں میں پڑ گئی. میں آپ کو کیا بتاؤں کہ اسکی بات کو ہضم کرنا کتنا مشکل رہا میرے لئے.ایک انسان غیر انسان کے ساتھ کیسے ازدواجی زندگی گزارسکتا ہے،یہ سوال مجھے بہت تنگ کیا کرتا تھا ،پھر مجھے ایک ایسی کتاب پڑھنے کا اتفاق ہوا جو جنات کے متعلق کسی عالم دین نے بڑی تحقیق سے لکھی .تھی .یہ برسوں پرانی کتاب اسلامی حوالوں سے جنات کی زندگی کے بارے میں دلائل دیتی ہے .
اسکے بعد میں یہ سمجھ سکی ہوں کہ جنات مختلف صورتیں اپنا لیتے ہیں، کبھی سانپ بچھو کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور کبھی اونٹ ،گائے، بکری، گدھے، گھوڑے اور خچر وغیرہ کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور کبھی پرندوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں اور کبھی انسانوں کی شکل اختیار کر لیتے ہیں. جیسا کہ شیطان سراقہ ابن مالک کی شکل میں کفار کے پاس آیا تھا جب وہ بدر کی طرف نکل رہے تھے .جیسا کہ قرآن کریم نے اس طرف اشارہ کیا ہے کہ شیطان ایک نجدی بوڑھے کی شکل میں آیا تھا جبکہ کفار دارالندوہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مشورہ کرنے کے لئے جمے ہوئے تھے جیسا کہ قرآن کریم میں اس کا ذکر ہے. ترمذی اور نسائی شریف میں حضرت ابو سعید خدریؓ کی روایت ہے .وہ فرماتے ہیں کہ
حضور ﷺ نے فرمایا کہ مدینہ منورہ میں کچھ مسلمان جنات بھی رہتے ہیں. اگر تم کوکوئیی سانپ بچھو نظر پڑے تو پہلے اس کو تین بار ڈرا دو اگر تب بھی وہ نہ جائے تو اس کو مار دو. جب کسی پر جنات آتے ہیں تو اس کے بدن میں داخل ہو کر اثر کرتے ہیں. اسی طرح شیطان انسان کے بدن میں خون کی طرح دورہ کرتا ہے. اگر ان کا عنصر ناری نہ ہوتا تو یہ دونوں قسم کے آدمی جل کر خاک ہو جاتے. حضرت امام مالک ؒ سے لوگوں نے دریافت کیا کہ ایک جنّ ہماری لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہے. آپؒ نے فرمایا کہ شرعی اعتبار سے توکوئیی حرج نظر نہیں آتا لیکن
میں اس کو اس وجہ سے ناپسند کرتا ہوں کہ جب اس قسم کی عورت حاملہ ہو جائے گی اور لوگ اس سے دریافت کریں گے کہ تیرا شوہر کون ہے تو وہ یوں کہے کہ جن سے…تو اس سے اسلام میں فساد پیدا ہو جائے گا. امام مالک ؒ کا یہ ارشاد ابو عثمان سعید ابن العباس رازی نے اپنی کتاب ’’کتاب الامہام و الاوسوستہ فی باب نکاح الجن میں نقل کیا ہے. جنات کی حقیقت اور اسکے انسانی عورتوں سے شادی کے امکانات پر علمی طور پر میں جان چکی ہوں اور اب مجھے اشتیاق ہورہا ہے کہ اپنی سہیلی سے مل کر اب اسکی یہ کہانی بھی سنوں کہ ایک جن زادے کے ساتھ وہ دن رات کیسے بسر کرتی ہے.اب جب ملے گی تو پوچھ کر آپ سے شئیر کروں
اپنا کمنٹ کریں