صائم میرا شوہر اور میرا مان تھے۔ میری زندگی تھے ، اولاد نہ ہونے کے باوجود بھی انہوں نے کبھی بھی مجھے کوئی طعنہ نہیں دیا تھا ۔ ” باجی ” مجھے فادیہ کے گھر جانا ہے ، صائم بھائی چھوڑ دیں ھے نہ ! میری چھوٹی بہن سعدیہ نے مجھ سے پوچھاد کیوں نہیں چھوڑیں گے ۔ میری کیا مجال کہ ہوم مسنٹر کے کسی حکم کی خلاف ورزی کروں ۔ صائم نے شوخ ہوتے ہوۓ کہا ۔ اچھا سعد یہ
واپسی صائم کے ساتھ ہو گی یا پھر آٹو کر کے واپس آ جاؤ گی ۔ ر رائیٹ باجی یہ جیجا جی کس لیے ہیں ، سعدیہ نے بھی شوخی کے ساتھ کہا ۔ صائم نے کہا کہ جیجا جی بوقت ضرورت ڈرائیورو مالی باڈی گارڈو یوں سمجھ لیجئے جیجا جی نہیں ہیں ایک ایسا ایمیشن کر یکٹر ہے جسے آپ جب چاہیں اپنے من پسند کردار میں ڈھال لیں ۔ اچھا صائم سعدیہ کو اپنے ساتھ واپس لے آۓ گا ۔
مجھ سے امی نے ایک دفعہ کہا بھی تھا کہ سعدیہ کو صائم کے ا ساتھ مت بھیجا کرو ۔ یہ مناسب نہیں ہے مگر میں نے امی کو یہ کہہ کر خاموش کر دیا تھا کہ صائم بہت ہی مضبوط کردار کے مالک ہیں ۔ اور ہماری سعد یہ بھی ماشاءاللہ سمجھ دار ہے ۔ صائم سعدیہ کو ایسے چاہتے ہیں جیسے کوئی بھائی اپنی سگی بہن کو چاہتا ہو ۔ بلکہ شاید اتنا اعتماد سگے بھائی پر بھی نہیں کیا جا
سکتا ۔ جتنا میں صائم پر کرتی ہوں ۔ دن یونہی گزرتے رہے اور صائم اور سعدیہ کے شوق جملوں کو سن کر میں بھی بہت محفظ ہوتی تھی اور کبھی کبھی تو ان کے درمیان ریفری کا کردار بھی ادا کرتی تھی ۔ پھر جو کچھ ہوا ۔ اس کا میں نے کبھی نہ سوچا تھا اور نہ ہی میرے وہم و گمان میں تھا ۔ اس دن لائٹ نہیں تھی اور صائم آپ اپنا موبائل گھر میں چھوڑ کر باہر کئے ہوۓ تھے ، میں
نے وقت پاس کرنے کے لئے وہ موبائل اٹھا لیا اور گانے سننے کے لیے آڈیو لگا دی ، پھر ایک عجیب سی آڈیو چل پڑی ، یہ آواز تو سعدیہ کی تھی ۔ سعدیہ کے الفاظ تھے یا ہم میں بتا نہیں سکتی ۔ وہ صائم سے کہہ رہی تھی کہ صائم اب میں آپ کے سوا کسی سے شادی نہیں کر سکتی ۔ مجھے آپ سے محبت ہو چکی ہے ۔ آگے کی گفتگو بتا رہی تھی کہ بات میرے تصور سے کہیں زیادہ آگے
جا چکی ہے ۔ سعدیہ پریگ نیٹ ہو چکی تھی ۔ واٹس ایپ پر دیکھا تو ساری چیٹ ڈیلیٹ تھی ۔ یہ ریکارڈنگ شاید موبائل کی کیلری میں ڈیلیٹ کرنا صائم بھول گیا تھا ۔ میرے اعتماد کو کیسے ٹھیں پہنچائی ان لوگوں نے صائم جب گھر میں داخل ہوا تو میں نے یہ آڈیو اس کے سامنے رکھ دی ۔ پھر صائم نے صاف لفظوں میں مجھ سے کہہ دیا کہ اچھا ہوا تمہیں پتا چل گیا ۔ میں بھی کوئی
مناسب موقع دیکھ کر تمہیں بتانے ہی والا تھا ۔ دیکھو میں اور سعد یہ ایک دوسرے کو چاہتے ہیں ، ایک دوسرے سے پیار کرتے اس کی بہن نہ ہوتی تو میں نہ دیتا ۔ ہیں ۔ اکرم نے بھٹی پھٹی آنکھوں کے تم مجھ کو طلاق دو گے میں ساتھ صائم سے پوچھا ، ہاں کیوں نہیں کیونکہ دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں نہیں رکھا جا سکتا ۔ میں پھوٹ پھوٹ
کر روپڑی اور امی کے گھر آگئی ۔ پھر میں سعد میہ سے کہا ناگن بھی سات گھر چھوڑ دیتی ہے ، تو کیسی ناگن ہے ، تو نے اپنی ہی بہن کی خوشیوں کو ڈس لیاد تو نے تو میرے سہاگ پر ہی ڈاکہ ڈال دیا ۔ پھر جو جواب اس نے دیا وہ سن کر میرے ہوش اڑ کئے ۔ باجی جو دل چاہے کہہ لو یہ آنسو کچھ دن میں خشک ہو جائیں گے ، میں اور صائم کوشش کریں گے کہ آپ کی کسی اچھی جگہ شادی
ہو جاۓ ۔ بکواس بند کرو تم اور صائم دونوں ہی گندے ہو ۔ نام مت لینا ۔ سب کچھ تو میرالٹ چکا تھا ۔ اب مجھے تنہا اس آگ میں جلنا تھا ۔ طلاق کے کاغذات مجھ تک پہنچ چکے تھے ۔ سعد یہ اور صائم نے با قاعدہ کورٹ میرج کر لی ۔ اب میں ایک ایسی آگ میں جل رہی ہوں جس کے شعلوں کو خود میں نے ہی ہوادی تھی ۔ میں ہی تو کہتی تھی کہ صائم بہت با کردار ہے ، اور سعد یہ بہت نیک
ہے ۔ گند گی تو لوگوں کے دماغوں اور آنکھوں میں ہوتی ہے ۔ نہیں نہیں یہ تو ہونا ہی تھاد میں ہی تو تھی ان شعلوں کی پرورش کرنے والی شریعت کی اگر میں نے بات مانی ہوتی اور سالی اور بہنوئی میں کچھ قیود لگائی ہو تیں تو آج مجھے ان شعلوں میں جلنا نا پڑتا ۔ شیطان اور نفس دونوں کو موقع دینا ہی سنگین غلطی ہے ۔ آپ سے صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں کہ میری اس کہانی کو آپ
لکھ لیجئے تاکہ آئندہ اور کوئی نادیہ ان شعلوں میں نہ جلے یہ شعلے کہیں کسی پھو پھی اور بھتیجی کو جلاتے ہیں تو کہیں خالہ اور بھانجی کو ۔ آپ ان سب کو شعلوں میں جلنے سے بچا لیجئے , بتا دیجیے ان شعلوں کے بارے میں جو انہیں جلاتے ہیں ۔
اپنا کمنٹ کریں