آج نیوز کے پروگرام ”روبرو“ میں سینئر صحافی و تجزیہ کار حامد میر نے شوکت پراچہ کے سوالات کے جواب میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی عمران خان کی ممکنہ رہائی، اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات، اور سیاسی صورتحال پر مفصل گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت براہِ راست کوئی مذاکرات نہیں ہو رہے، بلکہ اگر کوئی بات چیت ہوتی بھی ہے تو وہ بالواسطہ یا انڈائریکٹ ذرائع سے کی جاتی ہے۔
ماضی کی مثالیں دیتے ہوئے حامد میر نے بتایا کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں بعض سیاستدانوں سے جیل میں یا کسی تیسرے مقام پر براہِ راست ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں، جیسے یوسف رضا گیلانی، آصف علی زرداری اور دیگر، جن سے اسٹیبلشمنٹ کے افسران آکر ملتے تھے لیکن اب ایسا سلسلہ تقریباً ختم ہو چکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ موجودہ دور میں عمران خان کی جماعت کے کچھ رہنما، جن پر اسٹیبلشمنٹ کو اعتماد ہے، جیسے علی امین گنڈاپور اور بیرسٹر گوہر خان، ان کے ذریعے پیغامات کا تبادلہ ہوا، لیکن عمران خان نے وہ شرائط تسلیم نہیں کیں جس کے باعث بات آگے نہیں بڑھی۔ حامد میر نے واضح کیا کہ اب ایسا لگتا ہے کہ نہ صرف براہِ راست بلکہ بالواسطہ مذاکرات بھی ختم ہو چکے ہیں۔ ان کے مطابق اس وقت پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کوئی فعال رابطہ نہیں رہا۔
سینئر صحافی حامد میر نے شیر افضل مروت کے دعوے کہ مذاکرات جاری ہیں اور عمران خان چالیس، پینتالیس دنوں میں رہا ہو سکتے ہیں، پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس ایسی کوئی مصدقہ اطلاع نہیں ہے، بلکہ ان کی مشاہدے کے مطابق صورتحال اس کے برعکس ہے۔
حامد میر انہوں نے بتایا کہ اس وقت جو پی ٹی آئی کے رہنما جیل سے باہر ہیں، ان کے خلاف بھی مقدمات چل رہے ہیں، زمانتیں منسوخ ہو رہی ہیں اور عدالتی رعایت کے باوجود گرفتاریاں ہو رہی ہیں۔ اس لیے فوری رہائی کے آثار نظر نہیں آتے، جب تک کوئی فریق کمپرومائز نہ کرے۔ ان کے مطابق اسٹیبلشمنٹ کمپرومائز کے موڈ میں نظر نہیں آتی اور اگر کوئی لچک دکھانی ہے تو وہ عمران خان کو دکھانی ہوگی۔
انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ بیرسٹر گوہر خان مسلسل عمران خان کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ تھوڑی نرمی دکھائیں، خاص طور پر سوشل میڈیا کے حوالے سے پارٹی کی پالیسیوں پر نظرِ ثانی کریں تاکہ مذاکرات کی راہ ہموار ہو سکے۔ حامد میر کا کہنا تھا کہ عمران خان شاید خود کو نواز شریف سے مختلف ثابت کرنا چاہتے ہیں، جو دو مرتبہ جیل سے نکل کر بیرونِ ملک چلے گئے اور سیاسی طور پر کامیاب بھی ہوئے۔ لیکن عمران خان اس وقت سخت موقف اپنائے ہوئے ہیں، جو کہ ان کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ تحریکِ انصاف اور جے یو آئی (ف) جیسے سیاسی مخالفین اگر قومی مسائل جیسے فلسطین یا کشمیر پر متحد ہوکر اقدامات کریں، مثلاً خیبر پختونخوا میں مشترکہ مظاہرے کریں، تو ان سے سیاسی مفاہمت کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ لیکن فی الحال کسی جانب سے کوئی سنجیدہ پیش رفت دکھائی نہیں دے رہی۔
حامد میر نے انکشاف کیا کہ دو تین دن قبل سلمان اکرم راجہ اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان طویل ملاقات ہوئی ہے جبکہ تحریک انصاف کے کچھ رہنما پیپلز پارٹی کے ساتھ بھی رابطے کروا رہے ہیں، خصوصاً سندھ میں نہری مسائل پر، تاکہ کوئی مشترکہ سیاسی حکمتِ عملی اپنائی جا سکے۔ اس کے ممکنہ نتائج میں تحریکِ عدم اعتماد کی صورت میں پیپلز پارٹی کی حمایت بھی شامل ہو سکتی ہے۔
آخر میں پاکستان کی سلامتی اور استحکام کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے حامد میر نے نہایت سنجیدہ اور فکرانگیز انداز میں کہا کہ ملک اس وقت جن داخلی چیلنجز اور سیاسی خلفشار سے گزر رہا ہے، اس کا سب سے بڑا نقصان ریاستِ پاکستان کو ہو رہا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ادارے، سیاسی قیادت اور دیگر اسٹیک ہولڈرز ہوش کے ناخن نہ لیں تو نہ صرف جمہوری عمل متاثر ہوگا بلکہ ملکی سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ سب فریقین ذاتی انا اور سیاسی ضد سے بالاتر ہوکر پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ایک دوسرے سے بات کریں، ورنہ یہ ٹکراؤ صرف عوام کی مشکلات کو بڑھائے گا۔
حامد میر نے زور دیا کہ پاکستان کو اس وقت سیاسی استحکام، معاشی بہتری اور قومی یکجہتی کی اشد ضرورت ہے۔