عورت کے جسم تک پہنچنے کے لیے مرد دو کام کرتا ہے لیکن عورت کو پتا نہیں چلتا

سادگی کا فتوہ تو ہر کوئی دیتا ہے مگر مرتا ہو کوئی بے حیائی پر ہی ہے ۔ سب سے زیادہ خطرناک عورت وہ ہے جس کا مرد اس کے قابو میں ہو۔اپنی بیوی سے محبت ہوجانا بڑھاپے کی نشانی ہے۔

عورت کو باحیا ہونا چاہیے۔ خوبصورت تو طوائفیں بھی ہوتی ہیں۔دنیا میں ایسی سیکڑوں لڑکیاں ہیں جن کا حسن غربت کے کیچڑ میں گل سڑ رہا ہے۔

عورت کے جسم میں پلنے والا مرد عورت کے جسم کے ساتھ کھیل کر کہتا ہے یہ عورت ہی خراب ہے۔کسی لڑکی کی زبردستی کروائی گئی شاد ی کے بعد ہمیشہ سرخ جوڑوں میں جنازے دیکھے۔

نکاح کر کے ساتھ لے جانے والا تھوڑا کالا سہی ،لیکن گناہ کرکے چھوڑ جانے والے خوبصورت محبوب سے لاکھ گنا بہتر ہوتا ہے۔

عورت جسے زندہ درگور کیاجاتا تھا آج عزت دینے والے اسلام سے آزادی چاہتی ہے۔ نسلی بکر ی کی کانوں سے اور خوبصورت لڑکی کے پاؤں سے پہچان کی جاتی ہے۔ مجھے عورت کو دیکھ کر بہت دکھ ہوتا ہے۔ جب اس کی ساکھ پردھبہ لگتا ہے۔تو وہ اسے مٹانے کے لیے داڑھی نہیں رکھ سکتی۔

عورت نہ کہہ دے تو مطلب ہوتا ہے “شاید”اور اگر شاید کہہ دے تو مطلب ہوتا ہے “ہاں ” اور اگرعورت ہاں کہہ

دے تو سمجھ لیں وہ عورت نہیں۔ عورت کو ہرطرح کی بدنامی سے بچنے کے لیے ایک گھر کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور مرد کو دن رات غلامی کرنے والے نوکر ، اسے عورت سے بڑھ کر کوئی اچھا نوکر نہیں مل سکتا۔

اس لیے روٹی ، کپڑا منظور کرکے مرد یہ سودا قبول کر لیتاہے۔ اور اسے ہمارے معاشرے میں بیاہ کے نام سے یا د کیاجاتا ہے۔ محبت میں سب طاقتیں ہوتی ہیں۔

بس ایک بولنے کی قوت نہیں ہوتی ۔ سیر ت کے صرف رنڈی رونے ہوتے ہیں مرتے سب جسم پر ہی ہیں۔ عورت کے جسم تک پہنچنے کے لیے مرد دو کام کرتا ہے ۔ جو کہ عورت کو نہیں پتا لگتے ۔پہلاکام: ہمدردی دکھاتا ہے۔ دوسرا کام: عورت کو یقین کودلاتا ہے کہ وہ خوبصورت ہے۔